Cherreads

Chapter 2 - آگ بھڑکانے والی ملاقاتیں" "

Episode.2

فنکشن کافی اچھا ہو گیا تھا اگلے دن بارات تھی سب تیار ہو کر ہال کے لیے نکل چکے تھے مہر جو اپنا دوپٹہ کندھے پر سیٹ کیے تیز تیز سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ آخری زینے پر پیر رکھتے ہی اسے ہیل کے چٹخنے کی آواز آئی اس سے پہلے کہ وہ گرتی اس نے جھٹ ریلنگ کو تھام لیا

"ہائے میرے اللہ یہ تو ٹوٹ گئی ہے"

سینڈل پر نظر ڈالتے اس کے سینے سے آہ نکلی تھی ابھی وہ اس غم پر پھوٹ پھوٹ کر رونے والی تھی کہ مشعل اس کے پیچھے سے سیڑھیاں اتر کر اس کے سامنے آئی

" کیا ہوا مہر سب ٹھیک ہے نا ؟"

وہ اسے اس طرح بیٹھنے پر تشویش سے بولی

"میری سینڈل ٹوٹ گئی مجھے بتاؤ کیا کروں؟"

اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے

" تم ایک کام کرو میرے کمرے میں دوسری رکھی ہے وہ لے لو اور پیر تو ٹھیک ہے چوٹ تو نہیں لگی؟"

" ہاں میں ٹھیک ہوں تم چلو میں پہن کر آتی ہوں "

جلدی سے کہتی وہ دوبارہ سیڑھیاں چڑھ گئی

" ماشاءاللہ !"

وہ پلٹی ہی تھی کہ اسے کسی کی سرگوشی سنائی دے اس نے چونک کر اپنے سامنے کھڑے زریاب کو دیکھا

" تم کب آئے؟"

وہ حیران ہوئی

"تب جب آپ میرے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی"

وہ مسکرایا

" غلط فہمی ہے آپ کی "

مشعل نے مسکراہٹ دبائی

" تو آپ دور کر دیجیے"

اس نے سینے پر ہاتھ رکھے اس کی آنکھوں میں جھانکا

"اور کچھ؟"

اس نے معصومیت سے پلکیں جھپکائیں

"تمہاری آنکھوں میں ایک ایسی گہرائی ہے مشعل جو ہر بار مجھے اپنی دنیا سے دور لے جاتی ہے "

وہ اس کی آنکھوں میں چند لمحے دیکھتا رہا تھا وہ فریز ہو گئی تھی پھر مسکرا کر وہ آہستہ سے قدم اٹھاتا چلا گیا

"مشعل چلو یار پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکے ہیں"

مہر کی آواز پر بھی اس کے جسم میں کوئی جنبش نہ ہوئی وہ کب کا جا چکا تھا مگر وہ وہیں کھڑی تھی اس کی محبت کے حصار میں قید جس سے رہائی ناممکن تھی اور نہ ہی اسے کسی قسم کی رہائی چاہیے تھی

☆☆☆

ہال میں کافی رونق تھی سب مہمان آ چکے تھے نکاح کے بعد حریم بھابھی کو عبید بھائی کے پہلو میں بٹھا دیا گیا کھانا لگ چکا تھا مہر مشعل عینی ایمل اور مومنہ یہ پانچوں ایک ساتھ کھڑی اپنی اپنی پلیٹوں میں کھانا نکال رہی تھی ایمل اور مومنہ اپنا کھانا نکالتے فورا ہی وہاں سے کھسک گئیں عینی دائیں طرف اور مشعل بائیں طرف کسی اور ڈش کے لیے مڑ گئی تھیں جبکہ مہر وہی کھڑی اوریجنل سلو مو کا اپنے اوپر بھرپور استعمال کر رہی تھی اچانک اسے کسی چیز کا احساس ہوا اس نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا تبھی اس کی نظر بالکل اس کے سامنے ایک صوفے پر بیٹھے اس ہٹلر پر پڑی جو اسے ہی تقریبا گھور رہا تھا اس کی سٹی گم ہوئی ہاتھ میں پکڑی پلیٹ بری طرح کانپی اچانک ہی کوئی اس کے قریب آ کر اس کے کان میں ہاؤ بولا تھا

" آ ا ا ا ا۔۔۔۔"

کھانے کی پلیٹ فرش پر گر کر چکنا چور ہو گئی مگر اس کی چیخ ۔۔۔۔

وہ گرنے ہی لگی تھی کہ ڈرانے والے نے جھٹ سے اسے بازوں میں تھاما آتش ایک جھٹکے سے کھڑا ہوا

"آپ ٹھیک تو ہیں نا مہر آپی"

تیزی سے سیدھی ہو کر اس نے ایک دھموکا علی کے کندھے پر جڑ دیا

"علی کے بچے یہ کیا کیا سارا کھانا گرا دیا اگر میں گر جاتی تو"

" گری تو نہیں ہے ویسے بھی میں ہوں نا آپ کو سنبھالنے کے لیے"

اس نے دانت نکال کر کالر اکڑائے

" بس بس کسی کو بلا کر یہ جگہ صاف کرواؤ "

ہاتھ اٹھا کر وہ بولی تھی

"جو حکم آپ کا"

اس کا انداز انتہا کا فرمانبرداری لیے ہوئے تھا وہ چلا گیا تو اس نے بے اختیار ہی دوبارہ آتش کی طرف دیکھا تھا جس کے ساتھ زریاب بیٹھا باتیں کر رہا تھا وہ کزن ہونے کے ساتھ بہت اچھے دوست بھی تھے اچھا ہوا اس نے نہیں دیکھا دل ہی دل میں شکر ادا کرتے اس نے دوسری پلیٹ اٹھا لی تھی اس سے ذرا فاصلے پر عینی کوفت زدہ سی کھڑی تھی کیونکہ اس کے سامنے کوئی فاسٹ موشن میں کھانا نکال رہا تھا مگر وہ اسے نرا سست ہی لگ رہا تھا

"ایکسکیوز می بھائی ذرا جلدی کریں باقیوں کو بھی انتظار ہے"

آواز پر تو وہ چونکا ہی تھا مگر لفظ بھائی نے تو اس کی روح ہی نکال دی تھی اس کا تیز تیز چلتا ہاتھ رکا ہی مگر جس سلو موشن میں اس نے مڑ کر سامنے کھڑی بےزار شکل لیے لڑکی کو دیکھا وہ حیران ہونے کے لیے کافی تھا حیران تو عینی بھی ہوئی تھی

" تمہیں اور کوئی کام نہیں ہے جو ہر وقت میرا پیچھا کرتے رہتے ہو "

عینی تڑخ کر بولی

"پیچھا! فلحال تو آپ میرے پیچھے کھڑی ہیں وہ بھی لٹھ مار انداز میں "

وہ بھی بھنایا آخر کو روح کو چھلنی کر دینے والا لفظ بھائی کا بھی تو بدلہ لینا تھا

" یو۔۔۔"

عینی نے گھورا

" واٹ یو؟ اوہ اب سمجھا ضرور آپ پچھتا رہی ہوگی کہ آپ نے اتنے ہینڈسم لڑکے کو بھائی کیوں بول دیا اینی وے آپ آگے آجائے اور اپنا کھانا نکال لیجئے "

سائیڈ پر ہو کر اس نے طیش دلایا عینی کو لگا وہ اس کے ساتھ بحث کر کے اپنا وقت ہی برباد کرے گی اسی لیے بنا کوئی جواب دیے اس نے بریانی اپنی پلیٹ میں ڈالی

" مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے "

اس کی سیریس ٹون پر عینی نے ابرو اٹھا کر دیکھا

"کیا؟"

امان نے گہری سانس لے کر ایموشنل ایکسپریشن بنائے

" جب تم میرے ساتھ ہوتی ہو تو مجھے آلو والے چاول بھی بریانی لگتے ہیں"

عینی نے نہ سمجھی سے اس کو دیکھا

" لیکن تم تو ابھی ویسے بھی بریانی ہی کھا رہے ہو"

امان نے پلیٹ اس کو دکھائی

"ہاں لیکن اگر تم نہیں ہوتی تو شاید یہ بھی آلو والے چاول ہی لگتے"

عینی کی ہنسی چھوٹ گئی

" مذاق بہت اچھا کر لیتے ہو"

اسی طرح ہنستے ہوئے وہ پلٹ گئی اور امان وہ ایک لمحے کے لیے فریز ہوا تھا اس کی آنکھیں عینی کے چہرے پر جم سی گئی تھی اسے پہلی مرتبہ کسی کی ہنسی اتنی خوبصورت لگی تھی یا پھر شاید اس نے پہلی بار عینی کی ہنسی کو محسوس کیا تھا پلیٹ ہاتھ میں لیے وہ وہیں کھڑا رہا جیسے اس کا دماغ کہیں اور چلا گیا ہو یہ لڑکی صرف ہنسی تھی یا سچ میں کچھ اور بھی تھا دل ہی دل میں اس نے سوچا پھر اس کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ پھیلی ہلکا سا مسکراتے اس نے بریانی کی ایک بائٹ لی

" ہم ۔۔۔۔ بریانی اب اور بھی اچھی لگ رہی ہے"

عینی کی ہنسی اب بھی اس کی دماغ میں گونج رہی تھی

☆☆☆

" یار ایسی ہارر مووی لگانا کہ ہمیں ڈر بالکل نہ لگے"

یہ عینی تھی

" ہاں اور مووی میں جو الٹے پیروں والی چڑیل ہوتی ہے وہ جو بے ڈھنگے انداز میں چلتی ہے وہ تو بالکل نہ لگانا "

سب نے نہ سمجھی سے ایمل کو دیکھا

" ہیں وہ کون سی مووی ہے "

"ارے وہی جس کی شکل مہر سے کافی ملتی جلتی ہے "

ایمل کی بات پر جہاں سب کی ہنسی نکلی تھی وہی مہر نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا

" میں علی کو بلاتی ہوں وہی سی ڈیز لے کر آیا تھا تب تک تم سب آرام سے بیٹھو اور خبردار جو پاپ کارن اور لیز کو ہاتھ بھی لگایا"

آخر میں اس نے مومنہ اور ایمل کو گھور کر کہا تھا کیونکہ وہ دونوں اس کے جاتے ہی کھانے پر ٹوٹ پڑتی وہ دونوں گہری دوستی تھی ہم عمر ہونے کے باعث ان کی بنتی بھی بہت تھی وہ دونوں ایک جیسا کھاتی پیتی تھی حیرانی کی بات تھی مومنہ پر اثر زیادہ ہوتا تھا جبکہ ایمل اس کے برعکس کافی تو دبلی پتلی اور سمارٹ تھی پھر مہر مشعل اور عینی ان تینوں کی جوڑی تھی ہم عمر ہونے کی وجہ سے ان کی بھی آپس میں بڑی بنتی تھی شادی ختم ہو چکی تھی آج انہوں نے رات کو مووی دیکھنے کا پلان بنا لیا تھا جو علی لے کر آیا تھا جب مہر لاونچ میں پہنچی تو سب خوش گپیوں میں مصروف بڑے صوفوں پر آمنے سامنے بیٹھے چائے اور دیگر لوازمات کے ساتھ لطف اندوز ہو رہے تھے آتش زریاب اور امان دو صوفوں پر آمنے سامنے بیٹھے سنجیدگی سے کوئی موضوع ڈسکس کر رہے تھے امان ان کا کالج کے زمانے سے بہت اچھا دوست تھا امان کے والد میر سبحانی زایان خان اور رضا خان کے دور پرے کے رشتہ دار ہونے کے ساتھ بزنس پارٹنر بھی تھے میر سبحانی اور ثمن سبحانی بھی اس وقت وہاں موجود تھے

" ہش ہش۔۔۔"

علی جو وہیں نکڑ پر بیٹھا آتش اور باقی سب کی بورنگ گفتگو سن رہا تھا چونک کر سامنے دیکھا مہر سیڑھیوں کے دہانے پر کھڑی اسے ہی بلا رہی تھی اور اس کی ہش ہش باقی تینوں نے بھی سنی تھی علی کے ساتھ ان تینوں نے بھی بیک وقت اسے دیکھا تھا ان کے دیکھنے پر وہ تھوڑی کنفیوز سی ہو گئی

"میں آتا ہوں"

کہہ کر علی تیزی سے اس کے پاس گیا تھا

"یہ اس کو کیوں بلا رہی تھی؟"

آتش نے سرسری سا پوچھا

" شاید کوئی کام ہو ایک سیکنڈ میں دیکھتا ہوں "

زریاب کہہ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھا جہاں سے وہ دونوں جا چکے تھے

"مت دیکھا کر اسے ہٹلر کے طرح بے چاری سی تو ہے کون سا تجھے مار کر جیل سے فرار ہو جائے گی "

امان کے آواز پر اس نے لب بھینچ لیے، مہر نہ سہی امان تو مرا ہی مرا اس کے ہاتھوں

" بکواس نہ کر ایسا کچھ نہیں ہے"

اس نے صوفے سے ٹیک لگا لی

" ویسے اتنی بری نہیں ہے وہ معصوم شرارتی اور خوبصورت لیکن تمہیں یہ لڑکی سوٹ نہیں کرتی تمہارے لیے تو کوئی ایسی لڑکی ہونی چاہیے جو تمہاری طرح ہو جو ہر بات گن کر کرے"

آتش کی نظروں کی پرواہ کیے بغیر اس نے بات جاری رکھی

"اور مجھے پورا یقین ہے ایسی لڑکی تجھے کبھی نہیں ملے گی اور جس طرح کی لڑکی۔۔۔"

" یہ کیا لڑکی لڑکی لگا رکھی ہے جب مجھے شادی ہی نہیں کرنی تو میں اس کے بارے میں سوچوں ہی کیوں"

وہ بھنایا

"میں جانتا ہوں کہ تجھے لڑکیوں سے خاص قسم کی الرجی ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہر قسم کے الرجی کا علاج موجود ہے تو ٹینشن نہ لے میں تیری شادی کرواؤں گا آخر کو جگری یار ہوں تیرا"

امان مسکراتے ہوئے آتش کو زہر سے بھی زہریلا لگا تھا

"تو میرا یار نہیں بلکہ وہ دشمن ہے جو مارنے کے بعد پوچھتا ہے کہ تمہاری آخری خواہش کیا ہے "

"اتنا برا بھی نہیں ہوں چل آجا اوپر چلتے ہیں تیرس سالا میرا مطلب زریاب کو بلا لاتے ہیں لگتا ہے گلو سے خود کو وہی کہیں چپکا بیٹھا ہے"

اس کے تیور دیکھ کر اس نے فورا بات بدلی تھی کچھ بعید نہیں کہ سب کے سامنے اسے دھنک کے ہی نہ رکھ دے

"میں نہیں جا رہا تو چلا جا "

خائف سا کہتا وہ رضا چاچو کی طرف مڑ گیا امان کندھے اچکاتا سیڑھیوں کی طرف چلا گیا تقریبا 10 سے 15 منٹ ہو گئے ان تینوں کو گئے مگر مجال ہے جو ان میں سے کوئی ایک بھی واپس آیا ہو رضا چاچو اور میر سبحانی سے بات کرتے اس کی نظریں بلا ارادہ ہی سیڑھیوں کی طرف اٹھ رہی تھی

" یہ زریاب اور امان کہاں چلے گئے ہیں؟"

اچانک یاد آنے پر رضا صاحب نے پوچھا تھا

" وہ اوپر گئے ہیں "

آتش نے کہا

"ذرا فون ملاؤ ان کو اور واپس بلاؤ ساری بچیاں اوپر ہیں یہ دونوں وہاں کیا کرنے گئے ہیں"

رضا صاحب کی ماتھے پر بل پڑے

" ذریاب تو اپنا فون یہی بھول گیا ہے میں امان کو کرتا ہوں "

اس نے موبائل نکال کر امان کو کال کی جب تیسرے مرتبہ بھی ملانے پر اس نے کال نہ اٹھائی تو وہ کھڑا ہو گیا

" میں ان کو بلا لاتا ہوں "

رضا صاحب نے سر ہلا دیا جبکہ وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا اوپر چلا گیا

☆☆☆

"کوئی اچھی سی مووی لگا کر دو بس یہ دیکھ لینا کہ وہ ہارر نہ ہو "

مہر اسے لیے واپس وہیں پہنچ گئی تھی جبکہ وہ چار نیچے کار بیٹ پر آلتی پالتی مارے مزے سے بیٹھی گفتگو میں مصروف نظر آئی ان کے آتے ہی انہوں نے دیوار کے ساتھ پیچھے ٹیک لگا لی اور کھانا شانا سنبھال لیا

"یہ ساری ہارر ہیں میں ایک کام کرتا ہوں کوئی اور لگا دیتا ہوں وہ ادھر رکھی ہے"

ایک نظر ان سی ڈیز پر ڈالنے کے بعد وہ ایک ریک کی طرف بڑھ گیا مہر ایک ہاتھ کمر پر رکھے اسے دیکھنے لگی تبھی ذریاب اندر داخل ہوا تھا پہلی نظر ہی اس دشمن جاں پر پڑی تھی دوسری نظر میں اس نے کمرے کا جائزہ لیا پھر مسکراتے ہوئے وہ اس کے برابر میں جا بیٹا مشعل جو اس کی اچانک آمد پر پہلے حیران پھر اس کے اپنے ساتھ بیٹھنے پر کنفیوز ہو گئی

"یہ کیا حرکت ہے زریاب بھائی اٹھے وہاں سے اور نیچے جائیں "

ایمل نے تحکم سے کہا

" جب دو بڑے آپس میں بیٹھ کر بات کرنے لگے تو بچوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ٹانگ نہ اڑائے"

لا پرواہی سے کہتے زریاب نے اسے سمجھایا

" تو بڑے یا پھر دو محبوب"

عینی نے شرارت سے کہا

" کافی سمجھدار ہو گئی ہو عینی اگر اتنا کچھ جانتی ہو تو مزید سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ادھر اس سائیڈ پر چلی جاؤ تاکہ میں ان سے چھ اٹھ بات کر لوں"

ہنس کر کہتے آخر میں اس نے مشعل کو آنکھ ماری وہ بری طرح سٹپٹا گئی عینی او ہو کہتی شرافت سے اٹھ کر دوسری سمت ایمل اور مومنہ کے ساتھ جا بیٹھی اس کے بیٹھتے ہی ایک اور ہیرو نے انٹری ماری وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی

" ارے واہ یہاں تو فل سینما کا ماحول بنا رکھا ہے میں ایویں ہی نیچے اس ہٹلر کے ساتھ اپنے دماغ کا دہی کر رہا تھا "

منہ میں بڑ بڑاتے اور دل ہی دل میں اس کو دیکھ کر خوش ہوتے بظاہر لا پرواہ انداز لیے اس کے پہلو میں ذرا فاصلے پر جا کر بیٹھ گیا عینی اس کے اپنے پاس بیٹھنے پر مزید دوسری سمت کھسک گئی علی سی ڈی نکال لایا تھا مہر اور وہ ان سے بے خبر اپنے کام میں مشغول رہے

"تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟"

وہ حیران ہوئی

"تم لوگ مووی شروع ہونے کا ویٹ کر رہی ہو اور میں یہ دیکھنے آیا تھا کہ کوئی مجھے یاد تو نہیں کر رہا "

امان نے لیز اٹھا کر پیکٹ کھولتے چپس منہ میں ڈالی

"ہاں ہاں ہمارا دن تمہارے بنا ادھورا ہوتا ہے"

عینی نے طنز کیا امان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی

" ویسے ایک بات بتاؤں تمہیں "

"نہیں بتاؤ "

عینی نے بیزاری سے کہا لیکن امان نے اس کے لہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈرامائی انداز میں کہا

"جب تم میرے ساتھ ہوتی ہو نا تو مجھے پانچ والا پاپڑ بھی لیز لگتا ہے"

عینی ایک سیکنڈ کے لیے رکی پھر اس کا چہرہ بے یقینی میں بدلا

"کیا مطلب پہلی بار تم نے کہا تھا کہ آلو والے چاول بھی بریانی لگتے ہیں اور اب لیز"

" کیا کروں تمہاری کمپنی کا کمال ہے ارڈینری چیزیں بھی لگثری لگتی ہیں "

امان نے کندھے اچکائے عینی نے گھور کر اس کو دیکھا

"تمہارا سینس آف ہیومر اور تمہاری سوچ دونوں ہی لو بجٹ ہیں "

"اچھا اس کا مطلب تمہیں لیز کے ساتھ کوکا کولا بھی چاہیے "

امان نے ایک اور چپس منہ میں ڈالی عینی کے ہاتھ میں اگر کوک کی بوتل ہوتی تو وہ امان کے سر پر کھلتی اس سے پہلے کہ وہ ہنستا اس ولن نے ان کے کمرے میں انٹری ماری لو جی ہو گئی مووی شروع ارے بھائی جو علی نے لگائی ہے امان اس کی اچانک آمد پر تیزی سے کھڑا ہوا جبکہ ذریاب آرام سے وہیں بیٹھا اسے دیکھنے کے باوجود بھی مشعل سے سرگوشیوں کی صورت راز و نیاز میں مصروف رہا ارے بھائی وہ ڈرتا تھوڑی تھا اپنے ہونے والے سالے سے آتش ان سب پر ایک نظر ڈالنے کے بعد اب سامنے کھڑی مہر کو گھور رہا تھا جس کی آمد سے بے خبر وہ مزے سے والیوم اونچا کر رہی تھی یہ جانے بغیر کہ اس نے کتنی بڑی چوول مار دی ہے اس کی آمد سے کمرے میں یکدم خاموشی چھا گئی تھی علی جو سکرین کو بے وقوفوں کی طرح دیکھ رہا تھا ایک گانا چلتے ہی اس کی آنکھیں پھٹ گئیں ماتھے پر پسینہ اور گلا خشک ہو گیا اس نے ڈرتے ڈرتے مہر کے پیچھے کھڑے آتش کو دیکھا جو اسی کی ری ایکشن پر ذرا اگے ہو کر اسکرین کو دیکھ رہا تھا سب نے بیک وقت گانے کے بولوں پر اسکرین کو دیکھا تھا سامنے کے مناظر دیکھتے ہی ان لڑکیوں کی چیخیں نکل گئی ایمل اور مومنہ نے ایک دوسرے کی آنکھوں پر ہاتھ رکھے اتنی زور سے چیخی کہ اگر کوئی بہرا بھی ہوتا تو وہ بھی سن لیتا عینی نے پوری گردن ہی دیوار کی سمت موڑ لی مشعل نے سختی سے آنکھیں میچ لی اور مہر۔۔۔۔۔ مہر کے ہاتھ سے رموٹ چھوٹ کر کارپٹ پر جا گرا اس کے گال سرخ اور کانوں سے دھواں نکلنے لگا

"آتش بھائی !"

علی ہکلایا مہر کرنٹ کھا کر مڑی

" آتش ۔۔۔"

وہ بنا آواز کے بولی تھی مگر وہ اسے کہاں دیکھ رہا تھا وہ تو صدمے و بے یقینی سے سرخ چہرہ لیے سکرین کو اس طرح دیکھ رہا تھا کہ ابھی جلا کر راکھ کر ڈالے گا امان کے ہاتھ سے پیکٹ چھوٹ کر نیچے گر گیا

"ابے وہ عمران ہاشمی کے سگے بند کر اسے"

چپس نگل کر وہ چلایا مہر نے تیزی سے رموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کرنا چاہا مگر بے سود ایسے نازک موقعوں پر رموٹ ہمیں دھوکہ کیوں دیتے ہیں علی نے جھٹ تار کھینچ کر ٹی وی بند کر دی مہر کی جان جانے لگی اس کے قدم ڈگمگائے علی نے جھٹ اسے آگے بڑھ کر تھامنا چاہا مگر آتش کو دیکھ کر وہیں رک گیا

" توبہ استغفر اللہ، لا حولا ولا۔۔۔"

امان کانوں کو ہاتھ لگاتا مولوی ثنا اللہ بن گیا آتش کچھ کہے بغیر آگ کا گولا بنا باہر نکل گیا اس کے جاتے ہی امان اور ذریاب علی کی طرف خطرناک طیور لیے بڑھے کہ مہر نے انہیں روک لیا

"آپ دونوں باہر جائیں اسے ہم دیکھ لیں گے"

اس نے آستین چڑھا لی امان اور زریاب ان لڑکیوں کی طرف دیکھے بغیر شرافت سے باہر نکل گئے

"دیکھا نکل گئی نا چیخے"

علی نے ان کے جانے کے بعد ہنسنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جوک مارا

"ایمل ذرا دروازہ بند کرنا ان صاحب کو ہنسی بڑی آ رہی ہے ہم ذرا اس کو ہارر مووی نہ سہی اس کا ٹریلر ہی دکھا دیتے ہیں"

کافی دیر بعد اس بند کمرے کا دروازہ کھلا تھا کسی نے دھکا دے کر اسے باہر پھینکا اس کی شرٹ پوری پھٹ چکی تھی چہرہ لال ٹماٹر اور سوجا ہوا تھا انگلیوں کے نشان صاف نظر آرہے تھے ایک آنکھ بند بال عابدہ پروین کے جیسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ ہارر فلم کی شوٹنگ کے لیے بالکل تیار کھڑا ہے

" آج کے بعد میں مر کر بھی ان کا کوئی کام نہ کروں گا "

اس کا انگ انگ دکھ رہا تھا

"ایک کام کرتا ہو کہی غائب ہو جاتا ہوں مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ اب جا کر ان تینوں سے اپنی واقعی میں ہڈیاں تڑواوں"

منہ میں بڑبڑاتا وہ بھاگ کھڑا ہوا

☆☆☆

کچھ دنوں بعد

وہ اپنی فرینڈز کے ساتھ یونی سے باہر نکل رہی تھی اسے پوائنٹ سے بس پکڑنی تھی اسے ہمیشہ بابا اور ذریاب ہی پک کیا کرتے تھے زریاب نے اسے کال کر کے بتایا کہ آج وہ اور بابا میں سے کوئی نہیں آ سکتے ان کا کوئی پروجیکٹ شروع ہونے والا تھا وہ آج بزی ہوں گے وہ تیز تیز قدم اٹھا رہی تھی سب سے اگے مہر تھی اس کے چہرے پر غصہ اور دکھ کی ملی جلی کیفیت تھی آج ان کے آخری سمسٹر کا رزلٹ تھا اس کا نتیجہ 95 فیصد تھا مگر اسے 100 فیصد چاہیے تھے (اے لو) بہرحال اس نے کلاس میں ٹاپ کیا تھا لیکن پھر بھی اس کا موڈ ٹھیک نہیں ہوا تھا اوپر سے پوائنٹ پکڑنے کا عذاب

" یار مجھے دیکھو میرے 80 پرسنٹ ہیں اور میں تو بہت ہی خوش ہوں اور ایک تم ہو کہ جو ٹاپ کر کے بھی ناشکری کر رہی ہے"

آئیمہ اس کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش کرتے کچھ جھنجھلا کر بولی تھی

"میں نے سوچا تھا پورے 100 فیصد ہوں گے مگر ایسا نہیں ہوا حالانکہ میں نے بہت اچھے پیپرز دیے تھے "

وہ روہانسی ہو گئی

"اچھا نا کچھ نہیں ہوتا مجھے دیکھو میں تو فیل ہوتے ہوتے بچی ہوں اور بہت ہی خوش ہوں تم بھی چل کرو یار"

اس کے دائیں طرف چلتی امل نے کہا تھا

" ارے کوئی ان سے تو کچھ پوچھے جو فیل ہو چکی ہے"

آئیمہ نے اپنے ساتھ جلتی ارہا کی طرف اشارہ کیا جو زنگر برگر تقریبا ٹھونس رہی تھی

"کیا یار اس کی تو عادت ہو چکی ہے فیل ہونے کی"

امل کی بات پر وہ دونوں ہنس دیں جب کہ ارہا نے کچھ خفا ہو کر ان کو دیکھا تھا

"بس یار فزکس میں ہی فیل ہوئی ہوں ایک تو تم کمینیاں ہو جنہوں نے میری ہیلپ تک نہیں کی اوپر سے دانت بھی نکال رہی ہو"

مہر جو مڑ کر اسے دیکھنے لگی تھی کہ اچانک کسی سے ٹکرا گئی اس کے ہاتھ میں موجود رجسٹر اور فائلیں نیچے جا گرے

" اندھی ہو کر چل رہی ہو کچھ نظر نہیں آتا کیا "

مہر نے بوکھلا کر اس لڑکے کو دیکھا جو اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا اس پر چلایا تھا

"ایم سوری میں نے دیکھا نہیں"

اس نے فورا معذرت کی اور جھک کر رجسٹر اٹھا لیا باقی تینوں نے اس کی فائلیں اٹھا لی

" بہت اچھے طریقے ہیں تم جیسیوں کے پاس دھیان کھینچنے کے پہلے جان کا ٹکرانا پھر نخرے دکھانا "

مہر کے چہرے کا رنگ بدلا غصہ اس کی آنکھوں میں ٹپکا

"اوہ اچھا! اور کیا کیا جانتا ہے تو میری جیسی لڑکیوں کے بارے میں "

وہ تیزی سے بولی

" جب کوئی لڑکا تمہیں اگنور کرے تو تم کوئی نہ کوئی تماشا کھڑا کر ہی لیتی ہو"

اس لڑکے نے گھٹیا مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر پڑا

" اگر دوبارہ بکواس کی نا تو اگلا تھپڑ سوچنے کا بھی وقت نہیں لے گا "

مہر غصے سے بولی وہ لڑکا غصے سے اس کی طرف بڑھا لیکن اس کے دوست نے فورا اس کو روک لیا

"چھوڑ دفعہ کر چل یہاں سے "

وہ لڑکا بولا

"یہ لڑکی بچ نہیں سکتی دیکھنا"

وہ لڑکا غصے سے چلایا

" ہاں چھوڑو اس کو میں بھی دیکھتی ہوں کیا بگاڑ لے گا میرا "

وہ پھر سے آگے بڑھی لیکن آئیمہ نے فورا اس کو روک لیا

" مہر بس کرو چلو یہاں سے"

امل نے بھی اس کو پکڑ لیا

"تو جانتی نہیں ہے مجھے ایسا حشر کروں گا تیرا کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی"

وہ لڑکا پھر سے دھاڑا تھا

" ہاں تو سن میں بھی وہی مہر ہوں جو کسی سے ڈرنے والی نہیں تیرا حشر کیا ہوگا یہ تجھے وقت بتا دے گا "

مہر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ٹھنڈے لہجے میں بولی تھی وہ لڑکا غصے سے پاگل ہونے لگا

" بات سن اریس دفعہ کر چل یہاں سے میری بات سمجھ "

اریس نامی لڑکے کا دوست اسے پکڑے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی اشارہ کرتا بولا وہ لڑکا غصے سے پیر پٹختا وہاں سے چلا گیا تبھی ایک تیز رفتار گاڑی اس کے سامنے آ کر رکی

" جا کہاں رہا ہے ہمت ہے تو واپس آ، بزدل کہی کا بھاگ رہا ہے"

مہر چلائی تھی تبھی گاڑی کا دروازہ کھول کر آتش باہر نکل آیا بنا کچھ کہے بنا کچھ پوچھے اس نے تیزی سے مہر کا ہاتھ پکڑا گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے اندر کی طرف دھکیل دیا

" آتش تم!"

مہر کو جھٹکا سا لگا تھا لیکن آتش ایک لفظ کہے بغیر فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہی گاڑی تیز رفتاری سے نکال کر لے گیا

☆☆☆

" وہ سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو ایک تو مجھ سے ٹکرایا اوپر سے بےعزتی، تم جیسے لوگوں کو تو خود کی عزت کا بھی نہیں پتہ ہوتا مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا میں بھی اس کی عزت اتار رکھ دیتی بدتمیز جاہل خود کو پتا نہیں کیا سمجھ رہا تھا اگر مجھے ایک اور موقع ملتا نا تو اس کا منہ بند کرنے کا اتنا اچھا طریقہ نکالتی کہ یاد رہ جاتا "

وہ گاڑی میں بیٹھی مسلسل بول رہی تھی آتش خاموش آتش فشاں بنا بیٹھا بہت ضبط سے اس کی چلتی زبان سن رہا تھا اس نے گاڑی کی سپیڈ مزید بڑھا دی اب وہ کسی طرح مہر کو جلد از جلد گھر پہنچا دینا چاہتا تھا

" مطلب کیا تھا اس بے وقوف کا ہاں، اتنی بھی تمیز نہیں کہ ایک لڑکی سے بات کیسے کرنی ہے خود کو ہیرو سمجھ رہا تھا جبکہ اصل میں تو تھرڈ کلاس سائیڈ کا کریکٹر لگ رہا تھا ، نہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کیوں لائے وہاں سے ، مجھے بھی تو دیکھنے دیتے نہ کی وہ میرا کیا بگاڑ لیتا میں بھی نا اس کی شکل کا نیو ڈیزائن بنا دیتی دو منٹ مجھے وہاں مزید مل جاتے تو اس کی ایگو ایسے کرش کرتی جیسے چپس کا پیکٹ"

آتش نے ایک سیکنڈ کے لیے ترچھی نظر سے اس کو دیکھا

" اتنا غصہ آ رہا تھا اس کی شکل دیکھ کے جیسے اس کو لگا ہو میں ڈر جاؤں گی ،

ہا! میں مہرماہ ہوں کوئی رینڈم سی لڑکی نہیں جو تیرے جیسے لوگوں سے ڈر جائے گی اف مجھے اگر ایک اور موقع ملتا تو ایسی اس کی بےعزتی کرتی کی اگلے 50 سال تک کسی لڑکی کے سامنے جانے سے پہلے سوچتا میں تو کہتی ہوں آپ مجھے واپس چھوڑ آئیں میں ۔۔۔۔۔۔۔"

" خاموش ہو جاؤ مہر بالکل خاموش اب اگر تمہاری آواز آئی تو اٹھا کر گاڑی سے باہر پھینک دوں گا"

وہ غرایا

"ہاں تو اتار دے مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے آپ کے ساتھ جانے کا "

وہ جو پہلے ہی غصے سے بھری بیٹھی تھی تڑخ کر بولی آتش کا پیر یکدم ہی برک پر پڑا تھا کار ایک جھٹکے سے رک گئی اب وہ قہر بار نظروں سے مہر کو دیکھ رہا تھا

" آخر تمہارا مسئلہ کیا ہے یہی چاہتی تھی نا کہ میں وہاں پہنچنے کے بعد بھی مزے سے گاڑی میں بیٹھا تمہاری لڑائی دیکھتا رہتا اور کچھ نہ کرتا بٹ سوری مس مہرماہ کے تمہارے گھر کے مرد اتنے بے غیرت نہیں ہیں کہ اپنے خاندان کی عورت کو یوں اکیلا چھوڑ دے اور ایک بات اور میں چاہتا تو اس آدمی کی ہڈیاں توڑ دیتا مگر میں نے ایسا نہیں کیا کیوں؟ کیونکہ میں مزید کوئی تماشا نہیں چاہتا تھا جو تم پہلے ہی لگا چکی تھی"

وہ بگڑے تیور اور تنفس کے ساتھ بولا تھا

" میں نے کوئی تماشا نہیں لگایا تھا شروع اس نے کیا تھا اور ختم میں کرنا چاہتی تھی مگر آپ کی بے وقت آمد سے ایسا ممکن نہ ہو سکا"

وہ جو آتش سے ہمیشہ ڈری ڈری رہتی تھی آج بے خوفی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے غصے سے بول رہی تھی

" اچھا تو پھر وہ سرکس کا شو تھا جو تم نے وہاں پر موجود سبھی لوگوں کو انٹرٹین کرنے کے لیے لگایا تھا شاید تم نے غور نہیں کیا ہوگا کہ وہاں پر موجود سبھی لوگ اس مفت کے شو سے کافی لطف اندوز ہو رہے تھے "

وہ طنز سے بولا تھا اب کی بار مہر چپ رہی تھی آتش کے الفاظ ہی نہیں لہجہ اور نظریں ہی ایسی تھی کہ اسے خاموش رہنا پڑا تھا سختی سے لب بھینچے تمتماتے چہرے کے ساتھ اس نے ہینڈل پر ہاتھ رکھا

" ہاں تو پھر آپ بھی انٹرٹین ہو جاتے کیوں سب کا مزہ کرکرا کر دیا"

اس کی زبان پھسلی

" اس کا مطلب تم مان چکی ہو کہ تم نے واقعی میں تماشا لگایا تھا "

وہ اس کی ڈھٹائی پر گویا صدمے سے بولا تھا وہ مارے غصہ کے لال نیلی پیلی ہو گئی

" مجھے کہیں نہیں جانا آپ کے ساتھ شرافت سے گاڑی کا لاک کھولیں"

اس نے ہینڈل گھما کر دیکھا تھا جو لاکڈ تھا

" میں شریف ہوں لیکن تمہیں شرافت سے جانے نہیں دوں گا سوری میں ایسا کچھ نہیں کرنے والا "

آرام سے کہہ کر اس نے ڈیش بورڈ پر رکھی پانی کی بوتل اٹھا لی مہر ایک دم ڈھیلی پڑ گئی پھر اس نے ایک گہری سانس بھری اور آتش کو دیکھا جو بوتل کا ڈھکن کھول کر ہونٹوں تک لے کر گیا ہی تھا کہ رک گیا

" پیو گی ؟"

گردن موڑ کر اس سے پوچھا مہر نے نفی میں سر ہلایا

" بہتر ۔۔"

پانی پی کر اب وہ سامنے کی طرف دیکھ رہا تھا شاید وہ کچھ سوچ رہا تھا مہر بے اختیار اسے دیکھنے لگی کچھ لمحوں بعد آتش کو اس کی نظروں کا احساس ہوا وہ جھنجھلایا کیوں کہ وہ مسلسل اسے ہی دیکھ رہی تھی اس نے دوبارہ گردن موڑ کر مہر کو دیکھا اس کی آنکھوں میں غصہ تھا

" ایسے کیوں دیکھ رہی ہو ؟"

وہ چونکی پھر گردن ونڈ اسکرین کی طرف موڑ لی

" کچھ نہیں"

اس کی آواز بہت آہستہ تھی آتش نے ٹھنڈی سانس بھر کر گاڑی سٹارٹ کر لی جبکہ مہر، وہ اسے بتا نہیں سکی کہ وہ صرف سامنے سے ہی نہیں سائیڈ سے بھی اچھا لگتا ہے اس کا سائیڈ پوز بے حد پرکشش تھا مگر یہ بات آتش کو بتانا گویا موت سے سلام کرنے جیسا تھا مہر نے دھیرے سے آنکھیں بند کر لیں

جاری ہے

More Chapters