Cherreads

Chapter 3 - آنکھوں میں لکھا فیصلہ

"In a world where love collides with silence, every heartbeat tells a story."

"نہیں امی، ہرگز نہیں! میں اُس بےوقوف لڑکی سے شادی نہیں کروں گا!"

تہمینہ بیگم کی بات پر وہ یکدم آپے سے باہر ہو گیا تھا۔ مشعل اور علی نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا، جبکہ تہمینہ بیگم کو شدید تاو آیا۔

"اچھا؟ تو پھر کس سے کرنی ہے شادی؟"

انہوں نے تحمل سے سوال کیا۔

"ایسی کوئی بات نہیں، امی! بس، فلحال میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں۔ اور جب بھی ہو گا، تو مہر... وہ ہرگز نہیں ہوگی۔"

مہر کا نام لیتے ہوئے اس کا لہجہ کڑوا ہو گیا۔

"کیوں؟ مہر میں ایسی کون سی خرابی ہے؟ خوبصورت ہے، پڑھی لکھی ہے، پڑھائی بھی مکمل ہو چکی ہے۔"

انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی۔

"امی، آپ کو معلوم ہے وہ کیسی ہے۔ خود ہی سوچیں، میں کیسے جھیلوں گا اُسے؟ وہ پھوہڑ لڑکی، جسے کچھ آتا جاتا نہیں، اور اوپر سے اس کی زبان؟ نہیں امی، نہیں!"

وہ بڑبڑاتا جا رہا تھا۔

"تم اپنی بات کرو، اور خبردار جو میری بچی کو الٹا سیدھا بولا! کان کھینچ لوں گی تمہارے!"

وہ اس کے پاس صوفے پر آ کر بیٹھیں۔ آتش نے بےبسی سے گردن موڑ کر انہیں دیکھا، جیسے وہ اسے سولی پر چڑھانے کا بندوبست کر چکی ہوں۔

"امی، میں اُسے پسند نہیں کرتا۔ نہ ہماری کوئی انڈرسٹینڈنگ ہے، اور نہ ہی اس کا مزاج..."

"بس!" انہوں نے اس کی بات کاٹ دی۔

"میں نے یہ نہیں پوچھا کہ تم اُسے پسند کرتے ہو یا نہیں۔ میں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ تمہاری اور مشعل کی شادی ایک ساتھ کر دی جائے۔ ویسے بھی، میری بچی اتنی پیاری ہے، تمہیں خود ہی اس سے محبت ہو جائے گی۔"

انہوں نے نرمی سے کہتے ہوئے دوسرا بم گرایا۔ وہ ہونقوں کی طرح انہیں دیکھنے لگا جبکہ مشعل کی ہنسی چھوٹ گئی۔

"پلیز امی، یہ ظلم مت کریں!"

وہ ملتجی ہوا۔

"امی، اگر بھائی یہ شادی نہیں کرنا چاہتے تو میری کروا دیں۔ آپ کو پتا ہے، میں آپ کا کتنا فرمابردار بیٹا ہوں۔ کبھی انکار نہیں کیا۔ کیا ہوا جو مہر آپی مجھ سے پانچ سال بڑی ہیں؟ جب وہ ماریں گی تو دکھ بھی نہیں ہوگا، دل سے مان لوں گا!"

علی کی بات پر آتش نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا، اور تہمینہ بیگم نے ڈانٹا:

"زبان بند کرو اپنی، ورنہ تھپڑ ماروں گی!"

"ہاں تو آپ بھی کس پتھر سے سر مار رہی ہیں؟ دیکھا نہیں بھائی کس طرح مہر آپی کو گھورتے رہتے ہیں؟ اور وہ بیچاری ہمیشہ ان سے ڈرتی رہتی ہے! اگر ان کی شادی ہو گئی نا تو آپی واقعی اللہ کو پیاری ہو جائیں گی۔"

اس سے پہلے کہ وہ جوتا اٹھاتیں، علی تیزی سے بھاگ گیا۔

"کیا تم اپنی ماں کی ایک خواہش پوری نہیں کر سکتے؟"

انہوں نے بےبسی سے پوچھا۔

"امی، آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر۔ لیکن... یہ والی خواہش؟ سوری، میں پوری نہیں کر سکتا۔ مشعل، تم ہی سمجھاؤ امی کو۔"

وہ مشعل کی طرف مڑا، جو مسکراہٹ دبائے منظر کا مزہ لے رہی تھی۔

"امی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ دیکھیں نا، جب میں یہاں سے رخصت ہو جاؤں گی، تو پورے گھر میں سناٹا چھا جائے گا۔ علی یونیورسٹی، آپ آفس... امی اکیلی ہو جائیں گی۔ اور مہر تو ہے ہی بہت اچھی، گھر کو رونق لگا دے گی۔"

آخر میں اس کا لہجہ شرارتی تھا۔ آتش کو چکر آنے لگے تھے — بس یہی رونق ہی تو نہیں چاہیے تھی اسے!

"امی، اُسے کچھ نہیں آتا — نہ گھر کے کام، نہ کچھ اور۔۔۔"

وہ کہنا چاہتا تھا کہ اُسے شور شرابے سے چِڑ ہے — ارے نہیں، نفرت ہے! مگر تہمینہ بیگم نے اس کی بات کاٹ دی:

"تو تمہیں بیوی نہیں، نوکرانی چاہیے؟ ٹھیک ہے، میں کسی میڈ کا رشتہ دیکھ لیتی ہوں!"

مشعل کی ہنسی بےساختہ تھی، اور وہ چپ رہ گیا۔

"امی، پلیز میری بات۔۔۔"

وہ پھر سے کچھ کہنا چاہتا تھا، جب وہ غصے سے بولیں:

"بس بہت ہو گیا آتش! بہت سن لی تمہاری باتیں۔ ٹھیک ہے، اگر تم مہر سے شادی نہیں کرنا چاہتے تو میں طیبہ کو منع کر دیتی ہوں کہ مشعل کی شادی زریاب سے نہیں کر سکتی!"

مشعل کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ آتش نے بےیقینی سے انہیں دیکھا — اتنی سخت بات؟ تہمینہ بیگم بظاہر پرسکون تھیں، مگر اندر خوف زدہ۔ اگر آتش نے واقعی انکار کر دیا تو...؟ وہ ماں تھیں، مشعل کے دل کی بات جانتی تھیں۔ جانتی تھیں کہ مشعل کے دل میں زریاب کے لیے کیا ہے۔

اور آتش سوچ رہا تھا، کیا وہ واقعی اتنا خودغرض ہے کہ اپنی بہن کی خوشیوں کو اپنی ضد میں جلا دے؟ امی نے کیا جال بچھایا تھا — نہ وہ اس جال سے نکل سکتا تھا، نہ اس میں چین سے رہ سکتا تھا۔

اس نے مشعل کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ سفید تھا، دھواں دھواں۔ آتش کے دل کو کچھ ہوا۔

"آپ غلط کر رہی ہیں مشعل کے ساتھ۔ اس کا کیا قصور ہے؟"

اب کی بار اس کا لہجہ بےبسی سے بھرا ہوا تھا۔

"میں اس کی ماں ہوں، اور اس کے لیے جو بہتر ہو گا، وہی فیصلہ کروں گی۔ وہ تمہاری طرح نہیں، جو ماں سے بحث کرے!"

یہ آخری وار تھا۔ آتش نے مشعل کی طرف نہیں دیکھا۔ وہ تیزی سے وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔ دل تو کر رہا تھا کہ کوئی لحاظ کیے بغیر اسے ایک تھپڑ مار دے — کتنا ڈھیٹ تھا وہ!

"ٹھیک ہے، جیسے آپ کی مرضی۔ جو کرنا ہے، کر لیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔"

آہستگی سے کہتا وہ اٹھا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔

تہمینہ بیگم نے حیرت سے اس کی پشت کو دیکھا، پھر اونچی آواز میں مشعل کو پکارا۔ آخر اسے خوشخبری سنانی تھی!

"ایک تو یہ مشعل کی بچی ماں کے اشارے بھی نہیں سمجھتی! خود ہی کہہ رہی تھی کہ یہ سب اسے منانے کے لیے کر رہی ہوں، مگر نہیں، اسے کہاں سمجھ آتی ہے۔ اچھا ہے، آج ہی رضا صاحب اور طیبہ سے جا کر بات کر لیتی ہوں۔"

خوشی سے نحال، وہ مشعل کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں

☆☆☆

"مجھے ساجن کے گھر جانا ہے، 

مجھے ساجن کے گھر جانا ہے!"

سر میں گاتی لڑکیاں ایک ساتھ مہر کے کمرے میں داخل ہوئیں۔ مشعل کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ تھا۔

عینی نے خوشی سے ایک رس گلا نکالا اور حیرت سے بیٹھی مہر کے منہ میں ٹھونس دیا۔

"بہت بہت مبارک ہو مہر آپی!"

ایمل نے اسے گلے لگایا۔ بمشکل مٹھائی نگلتے ہوئے مہر نے ایمل کو پیچھے کیا۔

"کیا ہو گیا ہے تم سب کو؟ پاگل ہو گئی ہو کیا؟"

وہ حیران تھی، جبکہ سب بیڈ پر اس کے ارد گرد بیٹھ چکی تھیں۔

"تمہارا رشتہ پکا ہو گیا ہے!"

عینی نے سرپرائز دینے کے انداز میں کہا۔

"ہیں؟ سچی؟ کس کے ساتھ؟"

مہر پہلے حیران ہوئی پھر تھوڑا سا شرما کر بولی۔

"آتش بھائی کے ساتھ!"

مشعل نے اب کی بار سچ میں دھماکہ کر دیا۔

"آ۔۔۔آ۔۔۔آتش؟"

مہر نے ہکلا کر مشعل کو دیکھا، جس کے چہرے سے خوشی چھلک رہی تھی۔

"ہاں، آتش بھائی کے ساتھ! اسی لیے تو ہم یہاں آئے ہیں۔ خالہ نے امی کو کہہ دیا ہے کہ تمہاری اور میری شادی ایک ساتھ ہو گی۔ کیا تم خوش نہیں ہو؟"

مشعل نے اس کے چہرے کی اڑتی ہوائیاں دیکھ کر پوچھا۔

"نہیں... ایسی تو کوئی بات نہیں ہے..."

پھر خود کو سنبھالتے ہوئے وہ مسکرانے کی کوشش کرنے لگی۔

"کیا آتش مان گیا ہے؟"

مہر کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔ وہ جانتی تھی آتش کی نظر میں وہ کبھی خاص نہیں رہی۔ وہ تو اسے برداشت تک نہیں کر سکتا تھا۔

"ہاں، بھائی تو پہلے نہیں مان رہے تھے، لیکن امی نے سمجھایا تو مان گئے۔"

مشعل نے لاپرواہی سے جواب دیا۔ وہ جانتی تھی آتش کیسے مانا تھا، مگر وہ تفصیل فلحال کسی سے شئیر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ پھر اُس نے مہر کے ہاتھ تھام لیے۔

"تم خوش ہو نا، مہر؟"

اگر ابھی وہ انکار کر دیتی، تو مشعل خود خالہ اور امی سے بات کرتی۔ اسے مہر عزیز تھی۔

مہر کچھ لمحے خاموش رہی، پھر مسکرا کر اپنے ہاتھ چھڑا لیے۔

"دیکھا! مجھے پتہ تھا تم بھی بھائی سے محبت کرتی ہو!"

مشعل کی مسکراہٹ بے ساختہ تھی۔

"واقعی مہر؟ تم اس سڑو سے محبت کرتی ہو؟"

عینی نے حیرت سے پوچھا۔

"نن...نہیں!"

مہر گھبرا کر بولی، لیکن عینی نے فوراً بات پکڑ لی۔

"سچ سچ بتاؤ، کب سے چکر چل رہا ہے؟"

"ایسی کوئی بات نہیں عینی، تم غلط سمجھ رہی ہو!"

مہر کو وضاحت دینی پڑی۔

"سب کی نظریں؟ اف مہر کہاں پھنس گئی!"

"مشعل بی بی، نیچے باجی بیگم مہر بی بی کو بلانے کا کہہ رہی ہیں!"

میڈ نے دروازے سے جھانکتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے، ہم آ رہے ہیں، آپ جائیں!"

مشعل نے جواب دیا اور شرارت سے مہر کو دیکھا۔

"اٹھو اور ہمارے ساتھ چلو!"

"لیکن..."

مہر نے کچھ کہنا چاہا۔

"کوئی لیکن ویکن نہیں! آج تو امی شادی کی تاریخ لے کر ہی جائیں گی!"

مہر نے سفید چہرے، دھڑکتے دل اور پریشان آنکھوں کے ساتھ سب کو دیکھا۔

"کیا ہو گیا یار، ہم تو مذاق کر رہی تھیں!"

عینی نے اسے گلے لگایا اور گال پر پیار کیا۔

"چلو اب مسکرا دو، ورنہ سب یہی سمجھیں گے کہ تم سے زبردستی کی جا رہی ہے!"

مہر آہستہ سے مسکرائی، دوپٹہ سر پر لیا اور وہ سب کے گھیرے میں لاؤنج میں آ گئیں۔

مشعل نے مہر کو لے جا کر تہمینہ بیگم کے ساتھ بٹھا دیا۔ وہ کچھ کہہ رہی تھیں، کیا کہہ رہی تھیں، مہر کو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

اچانک ایک انگوٹھی اس کی انگلی میں پہنائی گئی۔ اس کی نظریں انگوٹھی سے ہوتے ہوئے سامنے بیٹھے آتش پر جا پڑیں — وہ اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

رضا صاحب اور تہمینہ خالہ آپس میں بات کر رہے تھے۔ تہمینہ خالہ نے اس کا سر چوما، اور اپنے ساتھ لگا لیا۔

مہر نے امی کو دیکھا، جو نم آنکھوں کے ساتھ خوشی سے نہال تھیں۔

شاید انہیں امید نہیں تھی کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔

مٹھائی بھی کھلائی گئی، مبارکبادیں بھی دی گئیں، انگوٹھی بھی پہنائی گئی، اور تاریخ بھی پکی ہو گئی۔

نایاب پھوپھو بھی موجود تھیں اور کافی خوش نظر آ رہی تھیں۔

مہر کی نظر ایک بار پھر آتش پر گئی۔ کیا واقعی وہ اس سے شادی کرنے جا رہا ہے؟

اس کی گہری بھوری آنکھوں میں دیکھ کر اسے لگا جیسے سانس ہی رک گئی ہو۔

وہ گھبرا کر اٹھی، اور گرتے پڑتے اپنے کمرے میں جا پہنچی۔

دروازہ بند کرنے ہی والی تھی کہ کسی نے دھکا دے کر دروازہ کھول دیا۔

وہ چاروں لڑکیاں کمر پر ہاتھ رکھے اُسے گھور رہی تھیں۔

مہر کی سانس پھولی ہوئی تھی، وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔

چہرہ سرخ، گال گلابی — اُس نے نظریں اٹھا کر سب کو دیکھا اور بری طرح شرما گئی۔

"ہائے اللہ! شکل دیکھو، کیسے لال ٹماٹر ہو رہی ہے!"

سب اس پر ہنسنے لگیں، اس سے لپٹ گئیں، اور ان کی جھرنوں جیسی ہنسی پورے کمرے میں گونج اٹھی۔

More Chapters